Friday 29 November 2013

پانی پر بھی زاد سفر میں پیاس تو لیتے ہیں

پانی پر بھی زادِ سفر میں پیاس تو لیتے ہیں
 چاہنے والے ایک دفعہ بَن باس تو لیتے ہیں
 ایک ہی شہر میں رہ کر جن کو اذنِ دِید نہ ہو
 یہی بہت ہے، ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں
رَستہ کتنا دیکھا ہوا ہو، پھر بھی شاہسوار
 ایڑ لگا کر اپنے ہاتھ میں راس تو لیتے ہیں
 پھر آنگن دیواروں کی اونچائی میں گم ہوں گے
 پہلے پہلے گھر اپنوں کے پاس تو لیتے ہیں
 یہی غنیمت ہے کہ بچے خالی ہاتھ نہیں ہیں
 اپنے پُرکھوں سے دکھ کی میراث تو لیتے ہیں

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment