Friday 29 November 2013

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
 مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
 ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
 کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
 وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پِھرتا ہے
 ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا
 وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کیلئے
 موسمِ گُل مِرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
 آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
 تیرا یہ پیار بھی دریا ہے، اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
 جرم یہ بھی مِرے اجداد کے سَر جائے گا

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment