Saturday, 2 November 2013

منزل کے انتظار میں مارے گئے ہیں ہم

منزل کے انتظار میں مارے گئے ہیں ہم
اک دشتِ بے کنار میں مارے گئے ہیں ہم
مرنے کے کتنے خوب مقامات تھے مگر
شوقِ وصالِ یار میں مارے گئے ہیں ہم
تفسیرِ کائنات کی گرہیں نہ کھل سکیں
سوچوں کے خلفشار میں مارے گئے ہیں ہم
بااختیار تھے بھی تو بے اختیار تھے
اپنے ہی اقتدار میں مارے گئے ہیں ہم
جپتے رہے ہیں امن کی آشا کے بول ہم
دشمن کے اعتبار میں مارے گئے ہیں ہم
زہریلے موسموں کے ارادے نہ پڑھ سکے
اُمیدِ برگ و بار میں مارے گئے ہیں ہم
مرکز پزیر ہو کے بھی مرکز گریز تھے
تبدیلئ مدار میں مارے گئے ہیں ہم
ہارے ہوئے تھے پھر بھی عمرؔ جی رہے تھے ہم
اک جیت کے خمار میں مارے گئے ہیں ہم

ابرار عمر

No comments:

Post a Comment