Saturday, 23 November 2013

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
دعا، پتوار ہوتی جا رہی ہے
دریچے اب کھلے ملنے لگے ہیں
فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے
کئی دن سے میرے اندر کی مسجد
خدا بے زار ہوتی جا رہی ہے
مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم
غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے
بہت کانٹوں بھری دنیا ہے لیکن
گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے
کٹی جاتی ہیں سانسوں کی پتنگیں
ہوا تلوار ہوتی جا رہی ہے
کوئی گنبد ہے دروازے کے پیچھے
صدا بے کار ہوتی جا رہی ہے
گلے کچھ دوست آکر مل رہے ہیں
چُھری پر دھار ہوتی جا رہی ہے

 راحت اندوری

No comments:

Post a Comment