Friday 29 November 2013

پھر چاک زندگی کو رفوگر ملا کہاں

 پھر چاکِ زندگی کو رفوگر ملا کہاں
 جو زخم ایک بار کھلا پھر سِلا کہاں
 کل رات ایک گھر میں بڑی روشنی رہی
 تارا مِرے نصیب کا تھا اور کھلا کہاں
اتری ہے میری آنکھ میں خوابوں کی موتیا
 ٹوٹے گا روشنی کا بھلا سلسلہ کہاں
 بن عکس آئینے کا ہُنر بھی نہ کھل سکا
 دکھ کے بغیر قلب و نظر کو جِلا کہاں
 ترکِ تعلقات کا کوئی سبب تو تھا
 سننے کا میرے دل کو مگر حوصلہ کہاں

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment