Monday 11 November 2013

کبھی آہ لب پہ مچل گئی کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے

 کبھی آہ لب پہ مچل گئی کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گئے

یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں کبھی بجھ گئے کبھی جل گئے

میں خیال و خواب کی محفلیں نہ بقدرِ شوق سجا سکا

تیری ایک نظر کے ساتھ ہی میرے سب ارادے بدل گئے

کبهی رنگ میں کبهی روپ میں کبھی چھاؤں میں کبھی دھوپ میں

کہیں آفتاب نظر ہیں وہ، کہیں ماہتاب میں ڈھل گئے

جو فنا ہوئے غمِ عشق میں انہیں زندگی کا نہ غم ہوا

جو نہ اپنی آگ میں جل سکے وہ پرائی آگ میں جل گئے

تھا انہیں بھی میری طرح جنون تو پھر ان میں مجھ میں یہ فرق کیوں

میں گرفتِ غم سے نہ بچ سکا، وہ حدودِ غم سے نکل گئے


رشید کامل

No comments:

Post a Comment