Saturday, 23 November 2013

ترے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا

تِرے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا
تجھے کس نے روک رکھا، تِرے جی میں کیا یہ آئی
کہ گیا تو بھول ظالم، اِدھر التفات کرنا
ہوئی تنگ اس کی بازی مِری چال سے، تو رُخ پھیر
وہ یہ ہمدموں سے بولا، کوئی اس سے مات کرنا
یہ زمانہ وہ ہے جس میں، ہیں بزرگ و خورد جتنے
انہیں فرض ہو گیا ہے گلۂ حیات کرنا
جو سفر میں ساتھ ہوں ہم تو رہے یہ ہم پہ قدغن
کہ نہ منہ کو اپنے ہرگز طرفِ قنات کرنا
یہ دعائے مصحفیؔ ہے، جو اجل بھی اس کو آوے
شبِ وصل کو تُو یا رب، نہ شبِ وفات کرنا

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment