Saturday 23 November 2013

تو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا

تُو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا
میرے سینے میں کبھی اک اضطراب ایسا بھی تھا
زندگی تنہا نہ تھی اے عشق! تیری راہ میں
دھوپ تھی، صحرا تھا اور اِک مہرباں سایہ بھی تھا
عِشق کے صحرا نشینوں سے ملاقاتیں بھی تھیں
حُسن کے شہرِ نگاراں میں بہت چرچا بھی تھا
ہر فسُردہ آنکھ سے مانوس تھی اپنی نظر
دُکھ بھرے سینے سے ہم رشتہ مِرا سینہ بھی تھا
تھک بھی جاتے تھے اگر صحرا نوَردی سے تو کیا
متّصل صحرا کے اِک وجد آفریں صحرا بھی تھا

اطہر نفیس

No comments:

Post a Comment