Friday 1 November 2013

جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے رد ہے

جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے، رد ہے
ایک رَتّی بھی اگر خواہشِ بد ہے، رد ہے
دُکھ دئیے ہیں زرِ خالِص کی پرکھ نے، لیکن
جس تعلّق میں کہیں کِینہ و کد ہے، رد ہے
امن لکھنا نہیں سیکھیں جنہیں پڑھ کر بچے
ان کتابوں پہ کسی کی بھی سند ہے، رد ہے
جب چڑھائی پہ مِرِا ہاتھ نہ تھاما تُو نے
اب یہ چوٹی پہ جو بے فیض مدد ہے، رد ہے
اس لگاوٹ بھرے لہجے کی جگہ ہے دل میں
تہنیت میں جو ریا اور حسد ہے، رد ہے
اپنی سرحد کی حفاظت پہ ہے ایمان، مگر
زندگی اور محبت پہ جو حد ہے، رد ہے
اس سے کہنا, کہ یہ تردید کوئی کھیل نہیں
جو مِری بات کو دہرائے کہ رد ہے، رد ہے

حمیدہ شاہین

No comments:

Post a Comment