Friday 1 November 2013

ٹوٹ کر گفت و گو نہ کر ایسے

ٹوٹ کر گُفت و گُو نہ کر ایسے
ہم تو شاعر ہیں، تُو نہ کر ایسے
زخم تک لوگ چھین لیتے ہیں
خود کو بے آبرُو نہ کر ایسے
کل کی آنکھوں کا قرض ہے ہم پر
روشنی کا لہُو نہ کر ایسے
دیکھ! شہرت, صلیبِ تنہا ہے
نام کی آرزُو نہ کر ایسے
کیفِ مَے ہر لہو کا ظرف نہیں
ہر کوئی ہم سبُو نہ کر ایسے
آ، کہ دَرشن کی منتطِر ہے بہار
اے مِری لالہ رُو! نہ کر ایسے
درد کے مستقِل خلا میں سعید
فصلِ جاں بے نمُو نہ کر ایسے

سعید خان

No comments:

Post a Comment