Saturday 2 November 2013

اپنے جذبات کے دھاگے میں پروئے رکھا

اپنے جذبات کے دھاگے میں پروئے رکھا
چاند کو رات کے دھاگے میں پروئے رکھا
میرے دل نے تری تحریر کا سجرا گجرا
سوچ کے ہاتھ کے دھاگے میں پروئے رکھا
جیت کے وقت کا اک شوخ چمکتا موتی
میں نے ہر مات کے دھاگے میں پروئے رکھا
وصل کی شام، مرے نام کا آدھا حصہ
اُس نے ہر بات کے دھاگے میں پروئے رکھا
زرد موسم تھے مگر ہم نے تری یاد کا پھول
اپنے دن رات کے دھاگے میں پروئے رکھا

ابرار عمر

No comments:

Post a Comment