Friday 29 November 2013

چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں

چراغ مانگتے رہنے کا کچھ سبب بھی نہیں
 اندھیرا کیسے بتائیں کہ اب تو شب بھی نہیں
 میں اپنے زعم میں اِک بازیافت پر خوش ہوں
 یہ واقعہ ہے کہ مجھ کو ملا وہ اب بھی نہیں
جو میرے شعر میں مجھ سے زیادہ بولتا ہے
 میں اُس کی بزم میں اِک حرفِ زیرِلب بھی نہیں
 اور اب تو زندگی کرنے کے سو طریقے ہیں
 ہم اس کے ہجر میں تنہا رہے تھے جب بھی نہیں
 کمال شخص تھا، جس نے مجھے تباہ کیا
 خلاف اس کے یہ دل ہو سکا ہے اب بھی نہیں
یہ دستکیں، یہ میری زندگی کی آدھی رات
 ہوا کا شور سمجھ لوں تو کچھ عجب بھی نہیں
 یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
 ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں
 حسابِ در بدری تجھ سے مانگ سکتا ہے
 غریبِ شہر مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
 ہمیں بہت ہے یہ ساداتِ عشق کی نسبت
 کہ یہ قبیلہ کوئی ایسا کم نسب بھی نہیں 

 پروین شاکر

No comments:

Post a Comment