Saturday, 23 November 2013

شہرت تو نہ تھی اتنی ترے ناز و ادا کی

شہرت تو نہ تھی اِتنی تِرے ناز و ادا کی
جِتنی ہوئی تشہیر میرے جرمِ وفا کی
گم تھے میرے نامے میں فرشتے سرِ محشر
رحمٰن نے چپکے سے بہشت مجھ کو عطا کی
ہو میل ہمارا بھلا کیوں حَشر سے پہلے
تُو خلد کی حور اور میں اِک آدمِ خاکی
میں حضرتِ یزداں کی عِنایات کا طالِب
تُو حضرتِ یزداں کی عِنایات کا شاکی
ہے حشر بپا چھوڑ گِلے شِکوے جہاں کے
کر معاف مجھے میں نے وہاں جو بھی خطا کی
ہو روزِ حَشر خلد میں حوروں کی تُو ملکہ
حنیف کے ہونٹوں نے فقط اِتنی دعا کی

حنیف سمانا

No comments:

Post a Comment