Friday 29 November 2013

خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا

خود پہ جب دشت کی وحشت کو مسلط کروں گا
اس قدر خاک اڑاؤں گا، قیامت کروں گا
ہجر کی رات مِری جان کو آئی ہوئی ہے
بچ گیا تو میں محبت کی مذمت کروں گا
تیری یادوں نے اگر ہاتھ بٹایا میرا
اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی مرمت کروں گا
جس کی چھاؤں میں تجھے پہلے پہل دیکھا تھا
میں اسی پیڑ کے نیچے تیری بیعت کروں گا
اب تِرے راز سنبھالے نہیں جاتے مجھ سے
میں کسی روز امانت میں خیانت کروں گا
بس اسی ڈر سے کہ اعصاب نہ شل ہو جائیں
میں اسے ہاتھ لگانے میں نہ عجلت کروں گا
لیلتہ القدر گزاروں گا کسی جنگل میں
نور برسے گا درختوں کی امامت کروں گا

تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment