شہر یہ دوسروں کا تھا، جس میں ہمیں سہا گیا
آج یہ بات سوچ کر، دل سے ہر اک گلہ گیا
دل یہ عجیب بات ہے تیری نہیں سُنی گئی
تھے جو بَلا کے سنگدل، ان کا کہا سنا گیا
ہاں، تیری آرزوئے ناز ہم کو بہت عزیز تھی
ہار سنگھار ہے اُداس اور وہ یوں کہ اک پرند
چھوڑ کے اپنا آشیاں، جانے کہاں چلا گیا
اس کا حساب حشر تک، کون لگائے گا بھلا
تجھ سے گیا تو کیا گیا، مجھ سے گیا تو کیا گیا
بات یہ ہے کہ میں جو تھا، خود سے نہیں تھا باوفا
اس لیے اپنے آپ میں، مجھ سے نہیں رہا گیا
دل کا ہماری ذات سے اور برونِ ذات سے
جونؔ عجب تھا سلسلہ، ہائے وہ سلسلہ گیا
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment