دریده ایسے ہوئے عمر بھر سِلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا کہ تجھے مِل کے بھی مِلے نہیں ہم
گلاب تھے کسی صحرا مزاج موسم کے
تمہارے خواب کے اطراف میں کھلے نہیں ہم
مِلے ہیں ورثے میں کچھ خواب کچھ جلے خیمے
تِرے محل کی روایت کے سِلسلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا تجھے تُو تو پہاڑ جیسا تھا
ہمیں بھی دیکھ جڑوں سے ذرا ہِلے نہیں ہم
زمیں کی تہ میں کہیں دُور دفن ہو گئے تھے
سو تیرے عہدِ خرابات میں مِلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا کہ تجھے مِل کے بھی مِلے نہیں ہم
گلاب تھے کسی صحرا مزاج موسم کے
تمہارے خواب کے اطراف میں کھلے نہیں ہم
مِلے ہیں ورثے میں کچھ خواب کچھ جلے خیمے
تِرے محل کی روایت کے سِلسلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا تجھے تُو تو پہاڑ جیسا تھا
ہمیں بھی دیکھ جڑوں سے ذرا ہِلے نہیں ہم
زمیں کی تہ میں کہیں دُور دفن ہو گئے تھے
سو تیرے عہدِ خرابات میں مِلے نہیں ہم
سجاد بلوچ
No comments:
Post a Comment