عیاں نہیں ہے جو مستی سرِ سبو میری
کہیں خلاؤں میں گونجے گی ہاؤ ہو میری
وہ کوئی اور تھا مقتل میں جاں لٹاتا ہوا
اگرچہ شکل بظاہر تھی ہو بہ ہو میری
یہ اور بات کہ ہم ایک ساتھ ہیں دنیا
خموش ہوں تو مجھے اتنا کم سخن بھی نہ جان
کلام کرتی ہے کٹ کر رگِ گلو میری
خدا ہی جانے کہ جیتا ہے کون ہارا کون
کہ جنگ آج ہوئی مجھ سے دو بدو میری
وہ سیلِ خوں تھا رواں آنکھ سے تو کیا کرتا
ادا ہوئی ہے نماز آج بے وضو میری
اے آسمان مری خلوتوں میں دخل نہ دے
ابھی زمین سے جاری ہے گفگتگو میری
میں سر اٹھاؤں تو چھت سر سے آن لگتی ہے
مکانِ عجز میں رہنے لگی ہے خو میری
مری لحد میں کسی کا ورود ہے اس دم
مہک رہی ہے بہت خاکِ بے نمو میری
عارف امام
No comments:
Post a Comment