Saturday, 2 November 2013

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائش عارض و لب ہی سہی

ہم سوختہ جانوں کی خاطر آرائشِ عارض و لب ہی سہی
جو برسوں تم کر نہ سکے وہ قتل کے ساماں اب ہی سہی
اے بادۂ ناب کے رکھوالے، دو گھونٹ ادھر بھی پہنچا دے
معیارِ کرم اس محفل کا، پیمانۂ نام و نسب ہی سہی
جو کچھ بھی کوئی کہتا ہے کہے، اظہارِ تمنا تو ہو گا
ہم اہلِ جنوں کی باتوں میں کچھ پہلوئے سوئے ادب ہی سہی
موجود ہیں پنچھی گلشن میں پھر کیوں ہے سکوتِ مرگ یہاں
پُرشور ترانوں کے بدلے، اک نغمہ زیر لب ہی سہی
اپنے پہ بھروسا ہے جن کو، نغماتِ سحر بھی سن لیں گے
کرنوں کی دمکتی آہٹ تک نقارۂ آخرِ شب ہی سہی
آلودہ زُباں ہو جائے گی، انصاف کی میٹھی بولی ہے
تم اپنی روش کو مت بدلو، ہم موردِ قہر و غضب ہی سہی
دیکھا ہے قتیلؔ آخر سب نے اس شوخ کو بھی مائل بہ کرم
اس کارِ نُمایاں کے پیچھے گستاخئ دستِ طلب ہی سہی

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment