Friday 29 November 2013

کسی صبح سویر سا چہرہ تھا کوئی سورج سی پیشانی تھی

کسی صبح سویر سا چہرہ تھا کوئی سورج سی پیشانی تھی
دو روشن روشن آنکھیں تھیں صدیوں جیسی حیرانی تھی
آثار بتاتے ہیں مجھ کو تجھ نام کی آہٹ ہونے تک
اک صحن تھا دل کے قصبے میں جس میں بیحد ویرانی تھی
میں اپنے باپ کا شہزادہ اس شہر کی دھول میں دھول ہوا
جس شہر میں جوبن بیت گیا ہر شکل مگر انجانی تھی
اک ہاتھ دھرا تھا سینے پر، اک پھول پڑا تھا زینے پر
جب جی آیا تھا جینے پر، تب مرنے میں آسانی تھی
اک خواب کی بتی جلتی تھی، اک یاد کا سایہ روشن تھا
اک نام کی خوشبو تازہ تھی سو سینوں میں تابانی تھی
ان گرد اڑاتے رستوں پر کیا کیا آوازیں دفن ہوئیں
ان غیر آباد مکانوں میں ہر چہرہ ایک کہانی تھی

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment