کسی صبح سویر سا چہرہ تھا کوئی سورج سی پیشانی تھی
دو روشن روشن آنکھیں تھیں صدیوں جیسی حیرانی تھی
آثار بتاتے ہیں مجھ کو تجھ نام کی آہٹ ہونے تک
اک صحن تھا دل کے قصبے میں جس میں بیحد ویرانی تھی
میں اپنے باپ کا شہزادہ اس شہر کی دھول میں دھول ہوا
جس شہر میں جوبن بیت گیا ہر شکل مگر انجانی تھی
اک ہاتھ دھرا تھا سینے پر، اک پھول پڑا تھا زینے پر
جب جی آیا تھا جینے پر، تب مرنے میں آسانی تھی
اک خواب کی بتی جلتی تھی، اک یاد کا سایہ روشن تھا
اک نام کی خوشبو تازہ تھی سو سینوں میں تابانی تھی
ان گرد اڑاتے رستوں پر کیا کیا آوازیں دفن ہوئیں
ان غیر آباد مکانوں میں ہر چہرہ ایک کہانی تھی
دو روشن روشن آنکھیں تھیں صدیوں جیسی حیرانی تھی
آثار بتاتے ہیں مجھ کو تجھ نام کی آہٹ ہونے تک
اک صحن تھا دل کے قصبے میں جس میں بیحد ویرانی تھی
میں اپنے باپ کا شہزادہ اس شہر کی دھول میں دھول ہوا
جس شہر میں جوبن بیت گیا ہر شکل مگر انجانی تھی
اک ہاتھ دھرا تھا سینے پر، اک پھول پڑا تھا زینے پر
جب جی آیا تھا جینے پر، تب مرنے میں آسانی تھی
اک خواب کی بتی جلتی تھی، اک یاد کا سایہ روشن تھا
اک نام کی خوشبو تازہ تھی سو سینوں میں تابانی تھی
ان گرد اڑاتے رستوں پر کیا کیا آوازیں دفن ہوئیں
ان غیر آباد مکانوں میں ہر چہرہ ایک کہانی تھی
حماد نیازی
No comments:
Post a Comment