تیرے اور مرے درمیاں کب ہے
رہ گزر ہے، یہ آسماں کب ہے
رہ سکوں میں خیالِ یار کے ساتھ
اتنا خالی یہ خاک داں کب ہے
چل رہی ہے زمین الٹے قدم
مجھ سے اتنے سوال مت پوچھو
کس لئے، کون ہے، کہاں، کب ہے
میرے ہونے کا جو گماں ہے میاں
وہم سا وہم ہے، گماں کب ہے
یہ نقوشِ قدم کسی کے ہیں
'میرے رستے میں کہکشاں کب ہے'
مسکراتا ہوں، جان دیتا ہوں
مشغلہ ہے یہ امتحاں کب ہے
موت مجھ کو ہے شہد سے شیریں
خائف از مرگ یہ جواں کب ہے
کیوں بتاؤں میں تیرا نام اسے
یہ مرا دل ہے رازداں کب ہے
اس کے سینے پہ سب ہے لکھا ہوا
جو بھی ہوتا ہے، ناگہاں کب ہے
اک ذرا دیکھ حیرتی ہو کر
ہاں وہ نا دیدہ ہے، نہاں کب ہے
میں نشے میں کدھر چلا آیا
اس گلی میں مرا مکاں کب ہے
عارف امام
No comments:
Post a Comment