تو کیا اُس خواب ہی میں سو گئے ہم
اُسی کے تھے، اُسی کے ہو گئے ہم
شجر اِک ریت کا صحرائے جاں میں
یہ کیسا بیج تھا، کیا بو گئے ہم
وہ مِل جائے تو جائیں خود کو ڈھونڈیں
اِک آنسُو وقت کی پلکوں پہ لرزاں
ابھی آئے نہیں، دیکھو گئے ہم
قسم لے لو کبھی جو گھر سے نکلے
تو کیسے اُس گلی میں کھو گئے ہم
پھر آنکھیں ہم نے اپنی بند کر لیں
پھر اُن راتوں سے رُخصت ہو گئے ہم
مصحف اقبال توصیفی
No comments:
Post a Comment