Friday, 29 November 2013

تو کیا اس خواب ہی میں سو گئے ہم

تو کیا اُس خواب ہی میں سو گئے ہم 
اُسی کے تھے، اُسی کے ہو گئے ہم 
شجر اِک ریت کا صحرائے جاں میں 
یہ کیسا بیج تھا، کیا بو گئے ہم 
وہ مِل جائے تو جائیں خود کو ڈھونڈیں 
اُسے ڈھونڈا ہے اتنا کھو گئے ہم 
اِک آنسُو وقت کی پلکوں پہ لرزاں 
ابھی آئے نہیں، دیکھو گئے ہم 
قسم لے لو کبھی جو گھر سے نکلے 
تو کیسے اُس گلی میں کھو گئے ہم 
پھر آنکھیں ہم نے اپنی بند کر لیں 
پھر اُن راتوں سے رُخصت ہو گئے ہم

مصحف اقبال توصیفی

No comments:

Post a Comment