عشق میں تازگی ہی رہتی ہے
آنسوؤں کی کمی ہی رہتی ہے
میری راتیں اُجڑ گئیں اے دوست
اب یہاں روشنی ہی رہتی ہے
جانے کیا ہو پلک جھپکنے میں
لاکھ وہ بے نیاز ہو جائیں
حُسن میں دلکشی ہی رہتی ہے
جُھوٹے وعدوں کی لذتیں مت پوچھ
آنکھ در سے لگی ہی رہتی ہے
ہجر کی رات ہو کہ صبحِ نشاط
زندگی زندگی ہی رہتی ہے
درد خود آگہی نہ ہو جب تک
کائنات اجنبی ہی رہتی ہے
زہر بھی ہم نے پی کے دیکھ لیا
عشق میں تشنگی ہی رہتی ہے
حُسن کرتا ہے مہر و ماہ سے چھیڑ
آنکھ لیکن جھکی ہی رہتی ہے
کچھ نئی بات تو نہیں قابلؔ
ہجر میں بے کلی ہی رہتی ہے
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment