Friday 29 November 2013

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو

پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
 بُھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو
 رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
 اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
 اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی
 کیوں کر مٹاؤں دل سے ترے غم کی چھاپ کو
 کتنا ہی بے کنار سمندر ہو پھر بھی دوست
 رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ کو
 پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
 پھر آئینے میں چُوم لیا اپنے آپ کو
تعریف کیا ہو قامتِ دلدار کی شکیبؔ
 تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو

 شکیب جلالی

No comments:

Post a Comment