Saturday 23 November 2013

حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم تو دل تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
نامرادی اپنی قسمت، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو، ہم کارواں تک آ گئے
ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے
اپنی اپنی جستجو ہے، اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے، ہم فغاں تک آ گئے
زُلف میں خُوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گُلستاں تک آ گئے
رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشئ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے
خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ، ہم جہاں تک آ گئے
آج قابلؔ میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے

 قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment