Friday 29 November 2013

اب حرف تمنا کو سماعت نہ ملے گی

اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
 بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
 تشہیر کے بازار میں اے تازہ خریدار
 زیبائشیں مل جائیں گی، قامت نہ ملے گی
 لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
 یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
 سوچا ہی نہ تھا یوں بھی اسے یاد رکھیں گے
 جب اس کو بھلانے کی بھی فرصت نہ ملے گی
 تا عمر وہی کارِ زیاں عشق رہا یاد
 حالانکہ یہ معلوم تھا اُجرت نہ ملے گی
تعبیر نظر آنے لگی خواب کی صورت
 اب خواب ہی دیکھو گے بشارت نہ ملے گی
 آئینہ صفت وقت! ترا حسن ہیں ہم لوگ
 کل آئینے ترسیں گے تو صورت نہ ملے گی

 پیرزادہ قاسم صدیقی

No comments:

Post a Comment