جو دل قریب ہو پہلے نشانہ بنتا ہے
سو اس کا تیر مجھی پر چلانا بنتا ہے
یہ بوڑھی ماں کی طرح کچھ بھی کہہ نہیں سکتی
سو اس زمیں کا تمسخر اڑانا بنتا ہے
چراغ زاد! چراغوں سے تیری بنتی نہیں
خرد کے آڑھتیوں کو یہ علم ہی تو نہیں
کہ خوب سوچ سمجھ کر دوانہ بنتا ہے
میں ہاتھ جوڑتا ہوں ناصحانِ شعلہ زباں
بہت دکھوں سے کوئی آشیانہ بنتا ہے
نہ جانے یہ ہنرِ عیب ہے کہ عیبِ ہنر
غزل بناتا ہوں، آئینہ خانہ بنتا ہے
یہ لوگ مجھ کو کسی طرح بخشتے ہی نہیں
میں چپ رہوں بھی تو کیا کیا فسانہ بنتا ہے
بتا! میں دل کا کروں کیا کہ ہر تعلقِ عشق
نیا بناتا ہوں لیکن پرانا بنتا ہے
خدا کو مانتا اور دوست جانتا ہوں سعودؔ
اور آج کل یہ چلن کافرانہ بنتا ہے
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment