آگہی میں امان ہے شاید
یا کوئی امتحان ہے شاید
میرا ہونا تو وہم تھا بے شک
اور نہ ہونا گمان ہے شاید
پھڑپھڑاتا ہے دل جو سینے میں
زخم الفاظ خون اور کاغذ
یہ مرا خاندان ہے شاید
ہے یقیناً ترے ظہور کا نور
ظاہراً خاکدان ہے شاید
سارے رستے ہیں دیکھے بھالے سے
ہاں یہی آسمان ہے شاید
خوب سجتا ہے ہاتھ میں کشکول
یہ فقیروں کی شان ہے شاید
کیوں میں یہ بات بھول جاتا ہوں
میرے منہ میں زبان ہے شاید
لال ہیں خون سے درو دیوار
یہ تو میرا مکان ہے شاید
عارف امام
No comments:
Post a Comment