شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا
سانس لیتا ہے مِرے سامنے صحرا کیسا
مِرے احساس میں یہ آگ بھری ہے کِس نے
رقص کرتا ہے مِری روح میں شعلہ کیسا
اپنی آنکھوں پہ تجھے اِتنا بھروسا کیوں ہے
تیرے بیمار چلے، توُ ہے مسیحا کیسا
یہ نہیں یاد کہ پہچان ہماری کیا ہے
اِک تماشے کے لیے سوانگ رچایا کیسا
دِل ہی عیّار ہے، بے وجہ دھڑک اُٹھتا ہے
ورنہ افسردہ ہواؤں میں بُلاوا کیسا
سانس لیتا ہے مِرے سامنے صحرا کیسا
مِرے احساس میں یہ آگ بھری ہے کِس نے
رقص کرتا ہے مِری روح میں شعلہ کیسا
اپنی آنکھوں پہ تجھے اِتنا بھروسا کیوں ہے
تیرے بیمار چلے، توُ ہے مسیحا کیسا
یہ نہیں یاد کہ پہچان ہماری کیا ہے
اِک تماشے کے لیے سوانگ رچایا کیسا
دِل ہی عیّار ہے، بے وجہ دھڑک اُٹھتا ہے
ورنہ افسردہ ہواؤں میں بُلاوا کیسا
ساقی فاروقی
No comments:
Post a Comment