Friday, 1 November 2013

عجیب صورت حالات ہونے والی ہے

عجیب صورتِ حالات ہونے والی ہے
بلا کی دھوپ میں برسات ہونے والی ہے
سکوت چھایا ہوا ہے غضب کا لہروں پر
کنارِ دریا کوئی بات ہونے والی ہے
نمازِ شکر تو پڑھ لوں کہ تیغِ قاتل کی
رگِ گلو سے ملاقات ہونے والی ہے
اے ریگزارِ قضا، تیری بے ہویدا خاک
ذرا ہی دیر میں سوغات ہونے والی ہے
لو آ رہے ہیں وہ لاشیں کچلنے والے سوار
ہے جشنِ فتح، شروعات ہونے والی ہے
جو بچ گئے ہیں اُنہیں میّتیں سمیٹنے دے
اے رقص گاہِ اجل! رات ہونے والی ہے
جو اپنی آگ سے روشن ہیں وہ چراغ ہیں ہم
ہمیں ہوا سے کہاں مات  ہونے والی ہے

عارف امام

No comments:

Post a Comment