Saturday 23 November 2013

ہم شب غم تری تصویر کو دیکھا کرتے

ہم شبِ غم تِری تصویر کو دیکھا کرتے
خواب نادیدہ کی تعبیر کو دیکھا کرتے
ہم شکستِ درِ زِنداں کا اثر کیا لیتے
اپنے ہی حلقۂ زنجیر کو دیکھا کرتے
کھیچ بھی لیتا اگر ذوقِ تماشا ان کو
مجھ کو کیا دیکھتے زنجیر کو دیکھا کرتے
خونِ دل بھی سرِ مِژگاں نہیں آیا، ورنہ
ہم اسی میں تِری تصویر کو دیکھا کرتے
لُطف جب تھا کہ کوئی پوچھتا دل کی حالت
اور ہم شورشِ زنجیر کو دیکھا کرتے
سایۂ زُلف میں نیند آ گئی، ورنہ قابلؔ
عمر بھر گردشِ تقدیر کو دیکھا کرتے

قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment