ہم شبِ غم تِری تصویر کو دیکھا کرتے
خواب نادیدہ کی تعبیر کو دیکھا کرتے
ہم شکستِ درِ زِنداں کا اثر کیا لیتے
اپنے ہی حلقۂ زنجیر کو دیکھا کرتے
کھیچ بھی لیتا اگر ذوقِ تماشا ان کو
خونِ دل بھی سرِ مِژگاں نہیں آیا، ورنہ
ہم اسی میں تِری تصویر کو دیکھا کرتے
لُطف جب تھا کہ کوئی پوچھتا دل کی حالت
اور ہم شورشِ زنجیر کو دیکھا کرتے
سایۂ زُلف میں نیند آ گئی، ورنہ قابلؔ
عمر بھر گردشِ تقدیر کو دیکھا کرتے
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment