تمہیں بھی آغاز روشنی کے حسِیں نظارے تو یاد ہوں گے
جو اپنی اُلفت کے رازدان تھے وہ چاند تارے تو یاد ہوں گے
ترا غرُورِ جمال مجھ کو جو بُھولتا ہے، تو بُھول جائے
مگر جوانی کی لغزشوں کو مرے سہارے تو یاد ہوں گے
کبھی ستاروں کی روشنی میں تمہیں بھی وحشت ہوئی تو ہو گی
تمہارے بس کا نہیں تلاطم، یہی مناسب ہے لوٹ جاؤ
مرے سفینے کےناخداؤ! تمہیں کنارے تو یاد ہوں گے
چمن چمن پہ مرا اثر تھا، روِش روِش پہ مری نظر تھی
ابھی زمانے کی گردِشوں کو مرے اِشارے تو یاد ہوں گے
اگر کناروں کا عیش پا کر شکستہ کشی کو بُھولتے ہو
جہاں نظر تم بدل گے تھے وہ تیز دھارے تو یاد ہوں گے
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment