غمِ دنیا و جورِ آسمان کچھ اور ہوتا ہے
دلِ ناکام پر لیکن گمان کچھ اور ہوتا ہے
سرِ منزل کہرامِ کارواں کچھ اور ہوتا ہے
ابھی تاروں کی گردش سے عیاں کچھ اور ہوتا ہے
بہار آتی ہے تو اکثر نشیمن جل ہی جاتے ہیں
بہت ہیں میکدے میں لڑکھڑانے جھومنے والے
وقارِ لغزشِ پیرِ مغاں کچھ اور ہوتا ہے
حوادث سے بھی کھیلے ہیں تلاطم سے بھی گزرے ہیں
مگر جذبات کا سیلِ رواں کچھ اور ہوتا ہے
بہت دلچسپ ہیں ناصح کی باتیں بھی مگر قابلؔ
محبت ہو تو اندازِ بیان کچھ اور ہوتا ہے
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment