Friday, 1 November 2013

تمام خلق مجھے مارنے پہ تل گئی ہے

تمام خَلق مجھے مارنے پہ تُل گئی ہے
قصور یہ ہے کہ اندر کی آنکھ کُھل گئی ہے
خدا کرے یہ حقیقت کوئی نہ جان سکے
کہ زہر بن کے اُداسی لہو میں گُھل گئی ہے
چمک اٹھا ہے اچانک جو دل کا آئینہ
کسی کے نُورِ نظر سے سیاہی دُھل گئی ہے
کہاں سے راہ مِلی ہے ہوائے تازہ کو
یہ دَر کُھلا ہے کہ دیوار کوئی کُھل گئی ہے
پَسِ چمن بھی چمن کی فضا میں زندہ ہوں
جدھر گیا ہوں، مِرے ساتھ بُوئے گُل گئی ہے
وہ چیز اپنے کسی کام کی نہیں، انصرؔ
زر و گُہر کے ترازو میں جو بھی تُل گئی ہے

سید انصر 

No comments:

Post a Comment