Friday, 1 November 2013

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں

جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تُو میرا نہیں
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے، نہیں، ایسا نہیں
وارداتِ دل کا قصہ ہے، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے، میرا آئینہ نہیں
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رَستہ نہیں
تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کا اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں
اُن سے مِل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایہ نہیں
کب تِری بُوئے قبا سے بیوفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں
مت سمجھ میرے تبسّم کو مسرّت کی دلیل
جو مِرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں
یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں
ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں، خدا ناکردہ، پتھر پوجنے والا نہیں
خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں
کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں 

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment