Saturday, 23 November 2013

لگے بھی دل، کسی پہلو مگر سکوں بھی نہ ہو

لگے بھی دل، کسی پہلو مگر سکوں بھی نہ ہو
لہو میں اس قدر آمیزشِ جنوں بھی نہ ہو
کِیا ہے جیسے محبت نے دربدر ہم کو
کوئی کسی کی طلب میں خراب یوں بھی نہ ہو
لہو رُتوں میں کہاں سے میں فاختہ کے لیے
وہ شاخ لاؤں کہ جس پر لکیرِ خوں بھی نہ ہو
وہ زخم کیا جو کسی جاں کو روشنی بھی نہ دے
وہ رنج کیا جو روایت گرِ جنوں بھی نہ ہو
وصال و ہجر کے نشّے بدل کے دیکھ لیا
قرار یوں بھی نہ آئے، قرار یوں بھی نہ ہو
ہمیں تو عشق عبادت کا معجزہ ہے سعیدؔ
عزیزِ جاں ہیں وہ سجدے کہ سر نگوں بھی نہ ہو

سعید خان

No comments:

Post a Comment