ان آنسوؤں کو تو پِینا پڑے گا ویسے بھی
تو دیکھ لیں اُسے دل تو دُکھے گا ویسے بھی
ہتھیلیوں پہ ہواؤں کو روکنے والے
چراغِ آخرِ شب ہے بُجھے گا ویسے بھی
سمٹ کے بیٹھو اور آنکھوں پہ ہاتھ بھی رکھ لو
وبالِ دوش نہ ہو جائے یہ متاعِ جاں
یہ کاروانِ نفس ہے لُٹے گا ویسے بھی
ابھی تو آیا ہے، اتنے سوال مت پوچھو
وہ تھک گیا ہے بہت، کیا کہے گا ویسے بھی
مصحف اقبال توصیفی
No comments:
Post a Comment