Friday, 29 November 2013

ان آنسوؤں کو تو پینا پڑے گا ویسے بھی

ان آنسوؤں کو تو پِینا پڑے گا ویسے بھی 
تو دیکھ لیں اُسے دل تو دُکھے گا ویسے بھی 
ہتھیلیوں پہ ہواؤں کو روکنے والے 
چراغِ آخرِ شب ہے بُجھے گا ویسے بھی 
سمٹ کے بیٹھو اور آنکھوں پہ ہاتھ بھی رکھ لو
لگی ہے آگ دُھواں تو اُٹھے گا ویسے بھی 
وبالِ دوش نہ ہو جائے یہ متاعِ جاں 
یہ کاروانِ نفس ہے لُٹے گا ویسے بھی 
ابھی تو آیا ہے، اتنے سوال مت پوچھو
وہ تھک گیا ہے بہت، کیا کہے گا ویسے بھی 

مصحف اقبال توصیفی

No comments:

Post a Comment