Saturday, 23 November 2013

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد

وہ ہر مقام سے پہلے، وہ ہر مقام کے بعد
سحر تھی شام سے پہلے، سحر ہے شام کے بعد
ہر انقلاب مبارک، ہر انقلاب عذاب
شکستِ جام سے پہلے، شکستِ جام کے بعد
مجھی پہ اتنی توجہ، مجھی سے اتنا گریز
میرے سلام سے پہلے، میرے سلام کے بعد
چراغِ بزمِ ستم ہیں، ہمارا حال نہ پُوچھ
جلے ہیں شام سے پہلے، بُجھے ہیں شام کے بعد
یہ رات کچھ بھی نہیں ہے، یہ رات سب کچھ ہے
طلوعِ جام سے پہلے، طلوعِ جام کے بعد
وہی زباں، وہی باتیں، مگر ہے کتنا فرق
تمہارے نام سے پہلے، تمہارے نام کے بعد
حیات گریۂ شبنم، حیات رقصِ شرر
تیرے پیام سے پہلے، تیرے پیام کے بعد
رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں
کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد
یہ طرزِ فکر، یہ رنگِ سخن کہاں قابلؔ
تیرے کلام سے پہلے، تیرے کلام کے بعد

 قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment