Saturday 23 November 2013

خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا

خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا
چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا
سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا
معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو
موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا
کس منہ سے اجل کو اب منہ اپنا دکھائیں گے
ہم میں تِری الفت نے کہہ تو ہی کہ کیا رکھا
قاصد جو گیا میرا لے نامہ تو پھر اس نے
نامہ کے کئے پرزے قاصد کو بٹھا رکھا
بے یار و دیار اپنے جیتا تو رہا میں پر
رکنے نے میرے جی کے دم میرا خفا رکھا
کس لب کے تبسّم نے چھڑکا تھا نمک ان پر
زخموں کے الم نے شب تا صبح مزا رکھا
کیا جانئے کب کا تھا میرا یہ فلک دشمن
جو اُس مہِ تاباں کو نت مجھ سے جدا رکھا
میں اپنے ہنر کا ہی بندہ ہوں کہ کل میں نے
پہلو میں دل اپنے کو پیکاں سے سجا رکھا
دیکھ اُس کی ادا یارو بس میں تو گیا مر ہی
جوں ہاتھ کو قاتل نے قبضہ پہ ذرا رکھا
اے مصحفیؔ میں کس کی رفتار کا کشتہ تھا
ہر شعر میں میں نے جو انداز نیا رکھا

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment