خورشید کو سایہ میں زلفوں کے چھپا رکھا
چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا
سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا
معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو
موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا
کس منہ سے اجل کو اب منہ اپنا دکھائیں گے
ہم میں تِری الفت نے کہہ تو ہی کہ کیا رکھا
قاصد جو گیا میرا لے نامہ تو پھر اس نے
نامہ کے کئے پرزے قاصد کو بٹھا رکھا
بے یار و دیار اپنے جیتا تو رہا میں پر
رکنے نے میرے جی کے دم میرا خفا رکھا
کس لب کے تبسّم نے چھڑکا تھا نمک ان پر
زخموں کے الم نے شب تا صبح مزا رکھا
کیا جانئے کب کا تھا میرا یہ فلک دشمن
جو اُس مہِ تاباں کو نت مجھ سے جدا رکھا
میں اپنے ہنر کا ہی بندہ ہوں کہ کل میں نے
پہلو میں دل اپنے کو پیکاں سے سجا رکھا
دیکھ اُس کی ادا یارو بس میں تو گیا مر ہی
جوں ہاتھ کو قاتل نے قبضہ پہ ذرا رکھا
اے مصحفیؔ میں کس کی رفتار کا کشتہ تھا
ہر شعر میں میں نے جو انداز نیا رکھا
غلام ہمدانی مصحفی
چتون کی دکھا خوبی سرمہ کو لگا رکھا
سویا تھا لپٹ کر میں اس ساتھ ولے اس نے
پہلو سے میرے پہلو تا صبح جدا رکھا
معمار نے قدرت کے طاقِ خمِ ابرو کو
موقعے سے بنایا تو ٹک لے کے جھکا رکھا
کس منہ سے اجل کو اب منہ اپنا دکھائیں گے
ہم میں تِری الفت نے کہہ تو ہی کہ کیا رکھا
قاصد جو گیا میرا لے نامہ تو پھر اس نے
نامہ کے کئے پرزے قاصد کو بٹھا رکھا
بے یار و دیار اپنے جیتا تو رہا میں پر
رکنے نے میرے جی کے دم میرا خفا رکھا
کس لب کے تبسّم نے چھڑکا تھا نمک ان پر
زخموں کے الم نے شب تا صبح مزا رکھا
کیا جانئے کب کا تھا میرا یہ فلک دشمن
جو اُس مہِ تاباں کو نت مجھ سے جدا رکھا
میں اپنے ہنر کا ہی بندہ ہوں کہ کل میں نے
پہلو میں دل اپنے کو پیکاں سے سجا رکھا
دیکھ اُس کی ادا یارو بس میں تو گیا مر ہی
جوں ہاتھ کو قاتل نے قبضہ پہ ذرا رکھا
اے مصحفیؔ میں کس کی رفتار کا کشتہ تھا
ہر شعر میں میں نے جو انداز نیا رکھا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment