دیکھ رہینِ احتیاط یوں نہ ابھی سنبھل کے چل
صورتِ موجِ تُند خُو، سمت بدل بدل کے چل
قریۂ جاں کے اس طرف روشنیوں کی بِھیڑ ہے
آج حدودِ ذات سے چار قدم نکل کے چل
دشتِ انا میں ہے تجھے، تیرگیوں کا سامنا
موجِ ہوا سے کر کشید، اور سفر کا حوصلہ
راہ کے خار خار کو پھول سمجھ، مسل کے چل
موسمِ بے قبا ٹھہر، وقتِ وِداعِ شوق ہے
اوڑھ لے رات ہجر کی، درد کی لَے میں ڈھل کے چل
نکتۂ رازِ دل نشیں کون زماں، کہاں زمیں
تُو بھی تو بے کنار ہو تہ سے کبھی اُچھل کے چل
جاگ بھی محسنِؔ حزِیں، زندگیوں کا بھید پا
سانس کی ہر صراط پہ ساتھ صدا اجل کے چل
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment