Sunday 1 December 2013

تمہارا ہاتھ مرے ہاتھ سے نکلتا ہے

تمہارا ہاتھ مِرے ہاتھ سے نکلتا ہے
یہ مسئلہ بھی کسی بات سے نکلتا ہے
تِرے خلاف نہیں ہوں تجھے بتایا تھا
سو اب تُو کس لیے اوقات سے نکلتا ہے
مذاکرات ہی خود سے فضول ہیں صاحب
جو دل میں ہو وہ کہاں ذات سے نکلتا ہے
تمہاری شام یہاں جس کے انتظار میں ہے
ہمارا دن بھی اسی رات سے نکلتا ہے
کہ ہم نے خود ہی جدائی کا انتخاب کیا
وگرنہ حل تو ملاقات سے نکلتا ہے

رمزی آثم

No comments:

Post a Comment