Saturday 21 December 2013

غروب ہوتی ہوئی عمر میں لگا ہے مجھے

غروب ہوتی ہوئی عمر میں لگا ہے مجھے
یہ عشق عشق نہیں ہے کوئی دعا ہے مجھے
ہر ایک سمت چھلکتی ہے روشنی میری
کسی نے اتنا اجالوں سے بھر دیا ہے مجھے
میں اپنے آپ کو پھر کیوں نظر نہیں آتا
یہ کائنات اگر ایک آئینہ ہے مجھے
میں آنے والے زمانے کا شخص ہوں، لیکن
کسی نے عہدِ گزشتہ میں رکھ دیا ہے مجھے
یہ کاروبارِ محبّت بھی خوب ہے شہزادؔ
جو میں نے اس میں گنوایا وہی بچا ہے مجھے 

 قمر رضا شہزاد

No comments:

Post a Comment