Sunday 29 December 2013

کیا خوب یہ انا ہے کہ کشکول توڑ کر

 کیا خوب یہ انا ہے کہ کشکول توڑ کر
 اب تک کھڑے ہوۓ ہیں وہیں ہاتھ جوڑ کر
 مر ہی نہ جائے ضبطِ فغاں سے کہیں یہ شہر
 سینے سے اس کے آہ نکالو جھنجھوڑ کر
 سُنت ہے کوئی ہِجرتِ ثانی بھلا بتاؤ؟
 جاتا ہے کوئی اپنے مدینے کو چھوڑ کر
اس کے علاوہ کوئی ہمارا نہیں یہاں
 جاؤ، کوئی خدا کو بلا لاؤ دوڑ کر
 عاصم یہ دکھ تو جھیلنے پڑتے ہیں عشق میں
 چادر نہ ہو تو سوتے نہیں خاک اوڑھ کر

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment