Sunday, 15 December 2013

تو سمجھتا ہے کسی جھیل سے نکلا ہوا ہے

تُو سمجھتا ہے کسی جھیل سے نکلا ہوا ہے
آئینہ دشت کی تمثیل سے نکلا ہوا ہے
روشنی اِسمِ معلٰی ہے سو یہ اِسم کسی
آیتِ عشق کی تنزیل سے نکلا ہوا ہے
تُو سمجھتا ہے کہیں اور نہیں جانے کا
اور یہ دل تِری تحویل سے نکلا ہوا ہے
اے مِرے ہِجر گزیدہ! تیرے رتبے کی قسم
تُو وہ قصہ ہے جو انجیل سے نکلا ہوا ہے
یہ جو وحشت ہے اسے دل میں سنبھالا جائے
یہ دِیا وہ ہے جو تشکیل سے نکلا ہوا ہے
وحشتیں ایسے بھی صد معنی ہوا کرتی ہیں
پھر تِرا ہِجر تو تفصیل سے نکلا ہوا ہے

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment