Friday 20 December 2013

وہ دلنواز ہے نظر شناس نہیں

وہ دل نواز ہے، نظر شناس نہیں
میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
میرے لئے کوئی شایانِ التماس نہیں
تیرے اجالوں میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
میرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو تیرے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے کہ تیری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت میری اداس نہیں

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment