Sunday 22 December 2013

جبروت کی لے صبر کی گفتار سے کم ہے

جبرُوت کی لَے صبر کی گفتار سے کم ہے
شاہوں کا حشم چہرۂ بیمار سے کم ہے
ایماں کی طرف آنے سے حُر کے یہ کُھلا راز
عالم کی جبِیں قلبِ گنہ گار سے کم ہے
شبیرؓ تیری بات کی کوئی نہیں تمثیل
اثباتِ جہاں بھی تیرے انکار سے کم ہے
چُننے کو اسے آئی ہیں خود فاطمہؓ زہراؓ
آنکھوں کا لہو، اشکِ عزادار سے کم ہے
حج چھوڑنا شبیرؓ کا بتلائے گا تا حشر
کعبے کی اذاں جرأتِ اظہار سے کم ہے
یہ بات ہمیں کربلا والوں نے بتائی
دولت کی چمک عظمتِ کردار سے کم ہے
لگتا ہے مجھے یہ کسی ظالم کا مکاں ہے
سایہ بھی یہاں سایۂ دیوار سے کم ہے
نقاشؔ نئے دور کا احساس تو دیکھو
شاعر کا ہُنر جبہ و دستار سے کم ہے

وصی الحسن نقاش

No comments:

Post a Comment