جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دِکھانے آ جاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں
دن بھر جو سُورج کے ڈر سے گلیوں میں چُھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پُرانے آ جاتے ہیں
جن لوگوں نے ان کی طلب میں صحراؤں کی دُھول اڑائی
کون سا جادُو ہے جس سے غم کی اندھیری، سرد گُپھا میں
لاکھ نسائی سانس دلوں کے روگ مٹانے آ جاتے ہیں
ریشمیں رومالوں کو کس کس کی نظروں سے چُھپائیں
کیسے ہیں وہ لوگ جنہیں یہ راز چُھپانے آ جاتے ہیں
ہم بھی منیرؔ اب دُنیاداری کر کے وقت گزاریں گے
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment