Sunday 29 December 2013

دعا لپیٹ کے رکھ دیں کلام چھوڑ دیں ہم

دُعا لپیٹ کے رکھ دیں، کلام چھوڑ دیں ہم
 تو کیا، یہ خُوش طلبی کا مقام چھوڑ دیں ہم
 ہماری خاک سے سونا بنانا مُشکل تھا
 جو بَن رہا ہے تو کیا اس کو خام چھوڑ دیں ہم
 کہاں کی قیدِ عناصر، کبھی جو حکم کرو
 تمہارے نام پہ سارے غلام چھوڑ دیں ہم
اسی لیے تو خموشی کو توڑنا پڑا ہے
 کسی نے ہم سے کہا، انتقام چھوڑ دیں ہم
 نہ عشق ٹھیک سے ہوتا ہے اور نہ کارِ جہاں
 جو تم کہو، تو کوئی ایک کام چھوڑ دیں ہم

عباس تابش

No comments:

Post a Comment