کہنی ہے ایک بات دلِ شاد کام سے
تنگ آ گیا ہوں یار! محبت کے نام سے
میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بِینا کا روگ ہے
اور لوگ ہیں، کہ کام انہیں اپنے کام سے
عُشّاق ہیں کہ مرنے کی لذّت سے ہیں نڈھال
شمشِیر ہے، کہ نکلی نہیں ہے نیام سے
جب اس نے جا کے پہلوئے گُل میں نشست کی
بادِ صبا بچھڑ گئی اپنے خرام سے
وحشت اک اور ہے مجھے ہِجرت سے بھی سوا
ہم خانہ، مطمئن نہیں میرے قیام سے
میری تو اور بات ہے وہ خوش نہيں کہ جو
ہم رنگ ہو گئے در و دیوار و بام سے
پانی تھا وہ سو اس کا مقدّر ہوا بنی
میں آگ تھا سو خاک ہوا اہتمام سے
ہر اسم بے طلسم تھا لیکن جمالؔ میں
تارے کو ماہتاب کیا اس کے نام سے
تنگ آ گیا ہوں یار! محبت کے نام سے
میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بِینا کا روگ ہے
اور لوگ ہیں، کہ کام انہیں اپنے کام سے
عُشّاق ہیں کہ مرنے کی لذّت سے ہیں نڈھال
شمشِیر ہے، کہ نکلی نہیں ہے نیام سے
جب اس نے جا کے پہلوئے گُل میں نشست کی
بادِ صبا بچھڑ گئی اپنے خرام سے
وحشت اک اور ہے مجھے ہِجرت سے بھی سوا
ہم خانہ، مطمئن نہیں میرے قیام سے
میری تو اور بات ہے وہ خوش نہيں کہ جو
ہم رنگ ہو گئے در و دیوار و بام سے
پانی تھا وہ سو اس کا مقدّر ہوا بنی
میں آگ تھا سو خاک ہوا اہتمام سے
ہر اسم بے طلسم تھا لیکن جمالؔ میں
تارے کو ماہتاب کیا اس کے نام سے
جمال احسانی
No comments:
Post a Comment