Tuesday 31 December 2013

عشق اور عقل میں یکتائی کہاں دیکھتے ہیں

عشق اور عقل میں یکتائی کہاں دیکھتے ہیں
ہم جنُوں خیز ہیں، رُسوائی کہاں دیکھتے ہیں
ہم نہ ہاریں گے کسی گام پہ بھی دشتِ بلا
تیرے پالے ہوئے پسپائی کہاں دیکھتے ہیں
کوئی فرصت سی ہے فرصت کہ نہیں اپنی خبر
ایسی بے ساختہ تنہائی کہاں دیکھتے ہیں
اب کسی اور ہی منزل کی ہمیں ہے خواہش
خود کو اب تیرا تمنائی کہاں دیکھتے ہیں
جنکی آنکھوں میں بسیرا ہے ہوس کا، بھنورے
غنچہ و گل میں وہ رعنائی کہاں دیکھتے ہیں
اب تو تاوان میں آنکھیں ہی یہ دینا ہوں گی
کور بیں شہر میں بینائی کہاں دیکھتے ہیں
اب تو ہر شہر میں ہے مصر کا بازار لگا
بھائی کا حق بھی یہاں بھائی کہاں دیکھتے ہیں
زرِ بیکار ہے اب اپنے لئے، تو یہ بھی
کوچۂ عشق میں دانائی کہاں دیکھتے ہیں
آج لاچار سمجھ کر جو ستم ڈھاتے ہیں
ایک ذرے میں توانائی کہاں دیکھتے ہیں
زر کی میزان پہ اوصاف جہاں تولتے ہوں
وہاں برسوں کی شناسائی کہاں دیکھتے ہیں
ان کی ہوتی ہیں زباں اور بیاں پر نظریں
اہلِ فن قافیہ پیمائی کہاں دیکھتے ہیں
عزت و منصب و دنیا کی یہ ساری دولت
تری دہلیز کے سودائی کہاں دیکھتے ہیں
نامِ مولا پہ لٹا دیں جو تبسمؔ ہستی
نام و ناموس کو مولائی کہاں دیکھتے ہیں

تبسم نواز

2 comments: