آواز دے کے خُود کو بلایا نہیں گیا
ایسا گیا ہوں، لوٹ کے آیا نہیں گیا
کیسے شفیق پیڑ تھے، کٹنے کے بعد بھی
اُن کا مِرے وجود سے سایا نہیں گیا
بکھرا ہوا ہوں، کتنے زمانوں پہ ٹوٹ کر
پورا ابھی سمیٹ کے لایا نہیں گیا
سُورج کے ساتھ ڈوب گئے،غم کی جھیل میں
کس رات تیرا ہِجر منایا نہیں گیا
اب بھی سُلگ رہا ہے مِری روح میں فگارؔ
اک اشک آج تک جو بہایا نہیں گیا
ایسا گیا ہوں، لوٹ کے آیا نہیں گیا
کیسے شفیق پیڑ تھے، کٹنے کے بعد بھی
اُن کا مِرے وجود سے سایا نہیں گیا
بکھرا ہوا ہوں، کتنے زمانوں پہ ٹوٹ کر
پورا ابھی سمیٹ کے لایا نہیں گیا
سُورج کے ساتھ ڈوب گئے،غم کی جھیل میں
کس رات تیرا ہِجر منایا نہیں گیا
اب بھی سُلگ رہا ہے مِری روح میں فگارؔ
اک اشک آج تک جو بہایا نہیں گیا
سلیم فگار
آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے
ReplyDeleteاپنی مدد کو آپ ہی آنا پڑا مجھے
پانی قبول ہی نہیں کرتا تھا میری لاش
دریا کو اپنا نام بتانا پڑا مجھے
مہمان آگیا تھا ، سو کھانے کی میز پر
جلتا ہوا چراغ بجھانا پڑا مجھے
منیر سیفی مرحوم
سید بادشاہ! سب سے پہلے تو میں آپ جیسی قدآور شخصیت کو اپنے بلاگ پر خوش آمدید کہتا ہوں
ReplyDeleteشعراء میں کسی بہر یا زمین سے متاثر ہو کر لکھنے کو رواج تو ایک مدت سے رائج ہے، اب مجھے معلوم نہیں کہ کون کس سے متاثر ہے