Monday, 23 December 2013

آواز دے کے خود کو بلایا نہیں گیا

آواز دے کے خُود کو بلایا نہیں گیا
ایسا گیا ہوں، لوٹ کے آیا نہیں گیا
کیسے شفیق پیڑ تھے، کٹنے کے بعد بھی
اُن کا مِرے وجود سے سایا نہیں گیا
بکھرا ہوا ہوں، کتنے زمانوں پہ ٹوٹ کر
پورا ابھی سمیٹ کے لایا نہیں گیا
سُورج کے ساتھ ڈوب گئے،غم کی جھیل میں
کس رات تیرا ہِجر منایا نہیں گیا
اب بھی سُلگ رہا ہے مِری روح میں فگارؔ
اک اشک آج تک جو بہایا نہیں گیا 

سلیم فگار

2 comments:

  1. آواز دے کے خود کو بلانا پڑا مجھے
    اپنی مدد کو آپ ہی آنا پڑا مجھے
    پانی قبول ہی نہیں کرتا تھا میری لاش
    دریا کو اپنا نام بتانا پڑا مجھے
    مہمان آگیا تھا ، سو کھانے کی میز پر
    جلتا ہوا چراغ بجھانا پڑا مجھے
    منیر سیفی مرحوم

    ReplyDelete
  2. سید بادشاہ! سب سے پہلے تو میں آپ جیسی قدآور شخصیت کو اپنے بلاگ پر خوش آمدید کہتا ہوں
    شعراء میں کسی بہر یا زمین سے متاثر ہو کر لکھنے کو رواج تو ایک مدت سے رائج ہے، اب مجھے معلوم نہیں کہ کون کس سے متاثر ہے

    ReplyDelete